کیا امام کو نیت امامت کرنا ضروری ہے

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
مقتدی نیت میں امام کے پیچھے کہتاہے تو کیا امام کو نیت میں کچھ خاص الفاظ کہنے ہونگے ؟
کیاامام کے لئے نیت امامت کرنا ضروری ہے؟
حکم شرع سے مطلع فرماکر عند اللہ ماجور ہوں
سائل :محمد عثمان علی قادری رضوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب: امام منفرد کی طرح نیت کرے گا کیونکہ وہ بذات خود منفرد کی منزل میں ہے امام کو امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے بغیر اس کے بھی مقتدیوں کی نماز صحیح ہے مگر فضیلت جماعت کے حصول کے لیے وہ حاضرین کی امامت کی بھی نیت کرے مثلا فجر کی نیت یوں کرے ” نیت کی میں نے آج کی دو رکعت نماز فرض فجر کی اور حاضرین کی امامت کی
فتاوی قاضی خان میں ہے ” الامام ینوی ما ینوی المنفرد لانہ منفرد فی حق نفسہ ولایحتاج الی نیۃ الامامۃ حتی لو نوی ان لایؤم فلانا فجاء فلان واقتدی بہ جاز ” (ج١ص٨٤)
در مختار میں ہے ” الامام ینوی صلاتہ فقط ولا یشترط لصحۃ الاقتداء نیۃ امامۃ المقتدی بل لنیل الثواب عند اقتداء احد بہ قبلہ ” (ج ١ص٤٢٤)
اسی کے تحت رد المحتار میں ہے :” ای بل نیۃ امامۃ المقتدی لنیل الامام ثواب الجماعۃ ”
بہار شریعت میں ہے :” امام کو نیت امامت مقتدی کی نماز صحیح ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے.
یہاں تک کہ اگر امام نے یہ قصد کرلیا کہ فلاں کا امام نہیں ہوں اور اس نے اس کی اقتدا کی نماز ہوگئی مگر امام نے امامت کی نیت نہ کی تو ثواب جماعت سے محروم رہیگا.
( فتاوی مرکز تربیت افتاء ج ١ص ١٥٠ میں ایسا ہی مذکور ہے.) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــہ
غلام مرتضیٰ مصباحی
غفرلہ ولوالدیہِ ولاساتذتہِ ولمنْ دعا لھم
خادم العلم
دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور یوپی انڈیا
١٠/شعبان المعظم ١٤٤١ ھ
٥/اپریل ٢٠٢٠ ء

شادی شدہ عورت زنا کرے تو اس کے لیے حکم شرع کیا ہے

السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ ہندہ جو کہ شادی شدہ ہے اس کے باوجود ایک کافر کے ساتھ زنا کیا تو ہندہ کے بارے میں شرع کا کیا حکم ہے
نیز اس کا شوہر اب بھی اس کا رکھنا چاہتا ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے
مکمل دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا
سائل :نور احمد قادری رضوی بارہ بنکی یوپی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب :شرع مطہر میں شادی شدہ اگر زنا کرے تو اس کی سزا سنگسار کیا جانا ہے یعنی اس قدر پتھر مارا جائے کہ وہ مرجائے مگر چونکہ ہندوستان میں اس پر قدرت نہیں ہے کیونکہ یہاں اسلامی حکومت نہیں ہے
ہندہ فاسقہ، فاجرہ، مستحقہ غضب جبار و عذاب نار ہے اس پر اعلانیہ توبہ و استغفار لازمی و ضروری ہے تُوبۃُ السِّرِّ بالسِّرِّ والعَلانِیۃِ بِالعَلانیۃِ
قبولیت توبہ کے لیے صدقات و خیرات کرے مسجد میں لوٹا چٹائی وغیرہ رکھے کیونکہ صدقات و خیرات قبولیت توبہ میں معاون ہوتے ہیں آئندہ ایسی حرکت قبیح و فعل شَنیع سے باز رہے.
زنا سے نکاح کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اگرچہ زنا بہت بڑا گناہ ہے ہندہ بدستور اپنے شوہر کی بیوی ہے لہذا اس کا شوہر اگر اسے اپنے نکاح میں رکھنے پر راضی ہے تو اسے اختیار ہے مگر اسے چاہیے کہ اپنی عورت کو سخت نگہداشت میں رکھے اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ رکھے. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــہ
غلام مرتضیٰ المصباحی
غفر لہ ولوالدیہ ولاساتذتہ ولمن دعا لھم
خادم العلم
دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں
اترولہ بلرام پور یوپی انڈیا
٩/شعبان المعظم ١٤٤١ ھ
٤/اپریل ٢٠٢٠ ء

وہ ہم میں سے نہیں ہے

السلام علیکم و رحمت اللہ
میرا سوال ہے کی
جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کسی فرمائیں
کے وہ ہم میں سے نہیں ہیں
تو اس کلام کا معنی کیا لیا جاتا ہے
یعنی مطلب کیا ہوتا ہے
خوب آسان طریقے سے سمجھا دیں
جزاک اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب : جہاں بھی حدیث میں اس طرح کا جملہ ہوتا ہے اس کے دو مفھوم ہوتے ہیں ایک میں حدیث پاک کو صریح مانتے ہوئے حکم کفر عائد ہوتا ہے اور دوسرے میں ماول مانتے ہوئے حکم فسق عائد ہوتا ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مَن غَشَّنَا فَلَیسَ مِنّا” جو ہم کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے
حدیث مذکور کی علماء نے کئ تاویلات بیان کی ہیں جن میں سے دو یہ ہیں
١ جو مسلمان کسی مسلمان کو دھوکہ دے اور اس کو دھوکہ دینا حلال سمجھے تو ہم میں سے نہیں ہے یعنی مسلمانوں میں سے نہیں ہے
٢ اور اگر حرام کو حرام جانتے ہوئے کیا تو یہ حرام ہے گنہگار ہوگا ایسی صورت میں حدیث کا مفھوم یہ ہے کہ یہ شخص ہماری سیرت کاملہ اور پسندیدہ طریقہ پر نہیں ہے
(المنھاج فی شرح صحیح مسلم بن حجاج
میں ایسا ہی مذکور ہے)
واللہ اعلم بالصواب
غُـلام مُرتَضیٰ المِصـْـبَاحِیْ

غفرلہ ولوالدیہِ ولاساتذتہِ ولمنْ دعا لھم

دارالعلوم محبوبیہ رمواپور کلاں اترولہ بلرام پور یوپی انڈیا

فرض ،واجب،مکروہ تنزیہی کسے کہتے ہیں

फरज، वाजिब और मकरूहे तनजीही
कुरान से जो चीज साबित हो
उससे बचना फरज
हदीस से जो साबित हो उससे बचना वाजिब
फोकहा जिससे बचने के लिए बोले वो मकरुहे तंजिहि
डॉक्टर नफीस साहेब अंसारी
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب :جو دلیل قطعی سے ثابت ہو یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہہ نہ ہو اسے فِقہہ کی اصطلاح میں فرض کہتے ہیں.
جس کی ضرورت دلیلِ ظَنِّی سے ثابت ہو اسے واجب کہتے ہیں
(فتاوی فقیہ ملت ج ٢ص٧٥)
مکروہ تنزیہی وہ عمل ہے جسے شریعت ناپسند رکھے مگر عمل پر عذاب کی وعید نہ ہو.
(بہار شریعت ح2 ص ٦)
اوپر کی اصطلاحات میں دلیل قطعی اور دلیل ظنی مذکور ہے اسے بھی سمجھ لیتے ہیں
دلیل قطعی :وہ ہے جس کا ثبوت قرآن پاک یا حدیث متواتر سے ہو
دلیل ظَنِّی:وہ ہے جس کا ثبوت قرآن پاک یا حدیث متواترہ سے نہ ہو بلکہ احادیث آحاد یا اقوال ائمہ سے ہو.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
غـُـلام مُــرتَــضی المِصْبَاحی
غُفرَلہ ولِوَالِدَیہ ولِاَسَاتِذَتِہِ ولِمَن دَعَا لَھُم
دارالعـــلوم محـبـــوبیــہ رمواپور کلاں اترولہ بلرام پور یوپی

کیا عورت شوہر اول سے بغیر طلاق لیے دوسرا نکاح کرسکتی ہے؟

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ زید نے نکاح کیا اور کچھ دن کے بعد زید ودیس چلا گیا کچھ دنوں کے بعد زید کی بیوی نے دوسرے کے ساتھ نکاح کر لیا اور گھر والوں نے اسکا ساتھ دیا تو پہلا نکاح ٹوٹ گیا یا ایسے مسلہ میں شرع کا کیا حکم ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ؛؛؛؛؛؛

المستفتی :نور احمد قادری بارا بنکی دیواں شریف یوپی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب :صورت مذکورہ میں زید کی عورت شرعا مجرم ہے اس کا زید سے طلاق لیے بغیر دوسرے آدمی سے نکاح کرنا سراسر حرام اور اشد حرام ہے
زید سے کیا ہوا نکاح ہرگز باطل و فاسد نہیں ہوا تاوقتیکہ وہ از خود طلاق نہ دے یا وفات پا جائے
زید کی عورت پر لازم ہے کہ دوسرا آدمی (جس سے اس نے نکاح حرام کیا ہے) سے فورا الگ ہوجائے اور عَلانیہ توبہ و استِغفار کرے تاوقتیکہ کہ زید سے طلاق حاصل نہ کرلے اس کے ساتھ زندگی گزارے.
زید کی موت یا اس سے طلاق لیے بغیر دوسرے سے نکاح ہر گز جائز نہیں ہے اور دوسرا آدمی جس نے زید کی منکوحہ سے نکاح کیا سخت گنہگار اور مستحق عذاب نار ہے اس پر بھی لازم ہیکہ زید کی منکوحہ کو علی الفور اپنے سے الگ کردے اور اپنے گناہوں سے علانیہ توبہ و استغفار کرے
اسی طرح دوسرے نکاح کے انعقاد سے جو لوگ بھی راضی تھے سب کے سب توبہ و استغفار کریں
اگر یہ لوگ ایسا نہ کریں تو مسلمان ان کا بائیکاٹ کریں.
(بہار شریعت ح ٧ کتاب الطلاق اور فتاوی رضویہ ج ١٢ کتاب الطلاق نیز فتاوی فیض الرسول ج 2 ص ٢٤٠ پر ایسا ہی مذکور ہے)
واللہ اعلم بالصواب
کــتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ
غـُـــــلام مُــرتَــضی المصباحی غفر لہ ولوالدیہ ولاساتذتہ ولمن دعا لھم
دارالعُـــــــلوم محـبـــــــوبیــہ
رمواپور کلاں اترولہ بلرام پور یوپی